मई,19,2024
spot_img

اثاثوں کو سرمائے کی شکل دینے سے متعلق حقیقت

spot_img
spot_img
spot_img

اثاثوں کو سرمائے کی شکل دینے سے متعلق حقیقت
*از ہردیپ ایس پوری

 

’’باطل اس وقت تک دنیا کا نصف سفر مکمل کر لیتا ہے جب حق اپنے جوتوں تسمے باندھ رہا ہوتا ہے۔ ‘‘یہ معروف کہاوت جھوٹ کے استعمال کے طریقہ کار پر مکمل طور پر احاطہ کرتی ہے۔ نصف سچائی اور غلط اطلاعات دونوں کا مرقع اس طرح پھیلایا جا رہا ہے کہ عوام الناس میں دہشت اور بے چینی پھیلائی جا سکے۔ ہماری اہم حزب مخالف کی جماعت لگاتار بنیاد پر اپنے حوالوں میں اسی کا سہارا لیتی ہے تاکہ اپنے سیاسی وجود کو برقرار رکھ سکے۔

 

سابق وزیر خزانہ پی چدمبرم کا کہنا ہے کہ، ’’بڑا فریب سامنے آچکا ہے۔ سچائی یہ ہے کہ ایسا ہی ہوا ہے۔ خود ان کا فریب بے نقاب ہوا ہے۔ ‘‘ انہوں نے خود اپنی جماعت کے فریب کو بے نقاب کیا ہے۔ جوچیز کانگریس کے برسر اقتدار ہونے کے زمانے میں ملک کے لئے بہتر تھی وہ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی حکومت کے زمانے میں ملک کے لئے بہتر نہیں ہے۔ ان کے یہ تمام تر الزامات جعلی افکار اور نصف سچائیوں سے پر ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ معمر رکن پارلیمنٹ اور سابق مرکزی وزیر کو اپنی سیاسی حیثیت بچانے کے لئے ایسا کرنا پڑا جس میں وہ ناکام رہے۔

 

یہ دعویٰ کہ مودی حکومت نے محض ایک جنبش قلم سے بھارت کے عوامی اثاثے کو صفر کر دینے کے قریب پہنچا دیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یا تو وہ یہ نہیں سمجھتے کہ قومی سرمایہ بہم رسانی پائپ لائن (این ایم پی) کی تجویز کے تحت کیا کیا جانا ہے، یا پھر سمجھتےتو ہیں تاہم وہ اسے منطقی انداز میں توڑ مروڑ کر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ وہ دانستہ طور پر کلیدی سرمایہ نکاسی کو اثاثوں کو سرمائے کی شکل دینے کے عمل کے ساتھ ملا کر پیش کر رہے ہیں۔ بات صرف یہ ہے کہ این ایم پی کے تحت کوئی بھی اثاثے فروخت کے لئے نہیں ہیں۔ انہیں کھلی اور شفاف بولیوں کے لگائے جانے کے عمل کے ذریعہ نجی شراکت داروں کو پٹے پر دیا جانا ہے اور یہ پٹے ایسی شرطوں پر دیے جائیں گے جو مفاد عامہ کی پہلے سے کہیں زیادہ حفاظت کر سکیں گے۔ مکمل عمل ملکی قوانین اور ملک کی عدالتوں کے تقاضوں کے مطابق پورا کیا جائے گا۔ نجی شراکت دار اثاثوں کا رکھ رکھاؤ کرے گا اور پٹے کی مدت مکمل ہونے پر انہیں حکومت کو واپس لوٹا دے گا۔

 

سابق وزیر خزانہ ان تمام اختراعی نئے ذرائع سے کلی طور پر نابلد معلوم ہوتے ہیں اور انہیں یہ بھی خبر نہیں ہے کہ حکومت نے انہیں نئے ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے اثاثوں کو سرمائے کی شکل میں لانے کی اجازت دی ہے۔ بنیادی ڈھانچہ سرمایہ کاری ٹرسٹوں (آئی این وی آئی ٹی) اور زمین جائیداد سے متعلق سرمایہ کار ٹرسٹ (آر ای آئی ٹی)، جو میوچووَل فنڈ کے مماثل سرمایہ کاری بہم پہنچائیں گے اور یہ سرمایہ کاری بنیادی ڈھانچے اور زمین جائیداد تک پہنچے گی ، بھارت کے عوام الناس اور مقتدر مالی سرمایہ کاروں کو ہمارے قومی اثاثوں میں سرمایہ لگانے کا موقع فراہم کریں گے۔ چند آئی این وی آئی ٹی اور آر ای آئی ٹی پہلے ہی اسٹاک منڈیوں میں درج فہرست کیے جا چکے ہیں۔

 

جس چیز کو سابق وزیر خزانہ غلط طریقے سےاثاثے کو سرمائے کی شکل میں بدلنے پر سالانہ 1.5 لاکھ کروڑ روپئے کا کرایہ کہتے ہیں، وہ اصلاً اس سے کہیں زیادہ فائدہ دے گا اور اس مالی ذریعہ کو اعلیٰ سرکاری سرمایہ کاری کا ذریعہ بنا دے گا جس سے نیا بنیادی ڈھانچہ تعمیر ہوگا۔ اثاثوں کو سرمائے کی شکل میں دینے کے پس پشت یہی منطق کارفرما ہے۔ بدقسمتی سے 2جی ، کول گیٹ، سی ڈبلیو جی اور آدرش جیسے گھوٹالوں کے توسط سے یو پی اے اس سے قبل ایک مختلف النوع سرمایہ بہم رسانی پر اپنی توجہ مرکوز رکھ چکی ہے۔

 

حکومت کو بھارت کے بنیادی ڈھانچوں کو ملک کے ایماندار ٹیکس دہندہ پر غیر ضروری وزن نہ ڈالتے ہوئے عالمی درجے کے بنیادی ڈھانچے کی شکل میں بدلنے کے لئے مالی وسائل درکار ہیں۔ گذشتہ سات برسوں کے دوران شاہراہوں کی مجموعی طوالت ڈیڑھ گنے سے بھی زیادہ کا اضافہ ہو چکا ہے۔ یہ طوالت 70 برسوں میں ممکن نہیں ہو سکی تھی۔ گذشتہ سات برسوں کے دوران شہری شعبوں میں عمل میں آنے والی مجموعی سرمایہ کاری 2004 سے 2014 کے درمیان دس برسوں میں کی گئی سرمایہ کاری کے مقابلے میں 7

 

گنا سے بھی زیادہ ہے۔
بدبختانہ بات یہ ہے کہ بیانیے کو توڑنے مروڑنے کی کوشش میں چدمبرم نے یوپی اے حکومت کی جانب سے سرکاری اثاثوں کو سرمائے کی شکل میں بدلنے کے چند ترقی پسندانہ چھوٹے اقدامات سے بھی صرف نظر کیا ہے۔ دہلی اور ممبئی ہوائی اڈوں کی نجکاری یو پی اے حکومت کے دورِ اقتدار میں عمل میں آئی تھی جب چدمبرم بذاتِ خود وزیر خزانہ اور وزراء کے اس گروپ کے چیئرمین تھے جو اس معاملے میں فیصلہ لینے کے لئے ذمہ دار تھا۔ چدمبرم رقمطراز ہیں کہ ریلوے ایک کلیدی شعبہ ہے اور اسے نجی شراکت کے لئے نہیں کھولنا چاہئے۔ انہوں نے 2008 میں ایسا کوئی قدم کیوں نہیں اٹھایا جب یوپی اے حکومت نے نئی دہلی ریلوے اسٹیشن کی ازسر نو ترقی کے لئے کوالیفکیشن کے سلسلے میں تجاویز طلب کی تھیں۔ یہاں تک کہ یوپی اے کے دور اقتدار کے بعد کانگریس ریاستوں میں برسر اقتدار رہی ہے جنہوں نے عوامی اثاثوں کو سرمائے میں بدلنے کے پالیسی فیصلے لیے ہیں۔ ماہ فروری 2020 میں ممبئی۔پنے ایکسپریس وے کو حکومت مہاراشٹر کی جانب سے 8262 کروڑ روپئے کے لئے مونیٹائز یا سرمائے کی شکل میں بدلا گیا تھا۔ چدمبرم اور ان کی پارٹی وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے کے قلم کو جنبش کرنے سے باز رکھنے پر قادر تھے۔
سابق وزیر خزانہ نے چند شعبوں میں اجارہ داری کے امکانی خدشات کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے امریکہ کی مثالیں دی ہیں جہاں تکنیکی کمپنیوں پر عتاب نازل ہوا ہے۔ جنوبی کوریا نے کیبولس پر بندش لگائی ہے اور چین نے اپنے کچھ انٹرنیٹ کے بڑے اداروں پر قدغن لگائی ہے ۔ یہ سب غیر مسابقتی طور طریقے ہیں ۔ بھارت میں بھی ایسے ادارے ہیں جو غیر مسابقتی طریقہ کار سے مربوط ہیں۔ ہر شعبے کے لئے مخصوص قواعد و ضوابط ہیں، بھارت کا مسابقی کمیشن موجود ہے، صارفین کی عدالتیں موجود ہیں، ان سب کے پاس اپنے اختیارات ہیں اور وہ حکومت ہند کے تحت وافر طور پر خودمختار بھی ہیں۔ کسی بھی غیر مسابقتی طریقہ کار پر قدغن لگا سکتے ہیں، ان کے خلاف کاروائی کر سکتے ہیں۔ حکومت نے بھی منڈی مسابقت کے لئے عہد کر رکھا ہے اور ایک ایسا طریقہ کار وضع کرے گی جو منڈی کے اختیارات کے کسی طرح کے ارتکاز کے امکانات کو کم سے کم کرے گا۔ چند شعبوں میں، مثلاً ریلوے کی لائنیں بچھانے کے کام میں، جہاں ایک فطری اجارہ داری قائم ہے وہاں سرمائے کو اور اثاثوں کو سرمائے میں بدلنے کا کوئی عمل نہیں ہوگا۔

 

سابق وزیر خزانہ نے روزگار سے متعلق اندیشوں کا بھی اظہار کیا ہے۔ اٹل بہاری واجپئی حکومت کے زمانے میں نجکاری سے متعلق کیے گئے مطالعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ روزگار کی نمو اصلاً اس وقت عمل میں آتی ہے جب کوئی بھی آپریشن مؤثر طریقے سے انجام پاتا ہے۔ اثاثوں کو سرمائے کی شکل میں بدلنے سے نہ صرف یہ کہ روزگار میں اضافہ ہوگا بلکہ یکسر نئے طرز کے روزگار فراہم ہوں گے جب حکومت اپنے مالیات کے فوائد کو ازسر نو سرمایہ کاری کے تحت لائے گی۔ ایک کثیر النوع اثر مرتب ہوگا ۔ایک ایسا شخص، جو بذات خود وزیر خزانہ رہا ہو، اسے اس کا احساس ضرور کرنا چاہئے۔

 

آخر میں، چدمبرم نے الزام لگایا ہے کہ حکومت نے این ایم پی کے متعلق ہر چیز کو صیغہ راز میں رکھا ، یہ بات حقائق سے پرے ہے۔اثاثوں کو سرمائے کی شکل میں دینے کے امر کا اعلان ماہ فروری 2021 کے مرکزی بجٹ میں کئی مہینوں قبل کیا گیا تھا۔ قومی سطح کی مشاورتوں اور کئی ادوار کے ویبناروں کا اہتمام کیا گیا تھا۔ گذشتہ ہفتے جس چیز کا اعلان کیا گیا ہے اس کا تعلق ایک لائحہ عمل سے ہے۔ اس سے قبل حکومت نے 2016 میں ایک کلیدی سرمایہ نکاسی پالیسی کا اعلان کیا تھا۔

 

ہماری حکومت ترقی پسندانہ عمل اور عوام الناس کے حق میں اصلاحات کرنے کے لئے پابند عہد ہے۔ ہم اسی تیقن کی بنیاد پر عمل پیرا ہیں۔ صیغہ راز میں رکھنا اور ہر چیز کو چھپانا، یہ کانگریس کا طریقہ کار تھا۔ یہ حکومت شفافیت اور قومی مفادات کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کرتی۔

***
*قلم کار پیٹرولیم اور قدرتی گیس اور ہاؤسنگ و شہری امور کے مرکزی وزیر ہیں

Urdu Translation of
The truth about asset monetisation
By
Hardeep S Puri

(Union Minister of Housing and Urban Affairs, Civil Aviation and Minister of State in the Ministry of Commerce and Industry)

ताज़ा खबरें

Editors Note

लेखक या संपादक की लिखित अनुमति के बिना पूर्ण या आंशिक रचनाओं का पुर्नप्रकाशन वर्जित है। लेखक के विचारों के साथ संपादक का सहमत या असहमत होना आवश्यक नहीं। सर्वाधिकार सुरक्षित। देशज टाइम्स में प्रकाशित रचनाओं में विचार लेखक के अपने हैं। देशज टाइम्स टीम का उनसे सहमत होना अनिवार्य नहीं है। कोई शिकायत, सुझाव या प्रतिक्रिया हो तो कृपया deshajtech2020@gmail.com पर लिखें।

- Advertisement -
- Advertisement -
error: कॉपी नहीं, शेयर करें